1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس: حجاب کے معاملے پر کشیدگی

ارسلان خالد22 جولائی 2013

فرانس کے دارالحکومت پیرس کے مضافاتی علاقے ٹریپس میں پولیس کی جانب سے دو خواتین کے حجاب اُتروانے کے بعد شروع ہونے والی کشیدگی دوسرے روز بھی جاری رہی۔

https://p.dw.com/p/19Bsm
تصویر: dapd

2010ء میں اُس وقت کے قدامت پسند صدر نکولا سارکوزی نے ایک قانون کے تحت فرانس میں خواتین کے نقاب اور برقعہ پہننے پر پابندی عائد کی تھی، البتہ خواتین کے ہیڈ اسکارف پہننے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا، زیادہ تر فرانسیسی مسلم خواتین اپنے سروں کو اسکارف سے ڈھانپتی ہیں۔

گزشتہ جمعرات کو یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب پولیس نے ٹریپس کے ایک جنوب مغربی علاقے میں دو نقاب پوش خواتین کو چہرہ ڈھانپنے کے سبب پکڑ لیا تھا، جس پر مشتعل مسلم برادری نے پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول دیا اور پتھراؤ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس نے 6 افراد کو گرفتار کر لیا۔

ٹریپس کے ایک جنوب مغربی علاقے میں پولیس اور مشتعل مظاہرین میں تصادم
ٹریپس میں پولیس اور مشتعل مظاہرین میں تصادمتصویر: Fred Dufour/AFP/Getty Images

فرانسیسی وزیر داخلہ مانوئل والس نے اس معاملے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ " پولیس نے اپنی کارروائی بالکل درست کی ہے ۔ قانون کے تحت خواتین کے حجاب کرنے پر پابندی ہے جو انکے فائدے میں ہے۔ حجاب کرنے کی روایت کا ہماری روایات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پابندی پر لازمی طور پر عمل کیا جانا چاہیے"۔

پیر کی صبح سے ٹریپس اور دوسرے مضافاتی علاقوں میں امن رہا تاہم اتوار کی رات تشدد کے آخری واقعے میں مشتعل افراد کی جانب سے گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی اور پولیس کو دستی بموں کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پولیس نے مزید دو افراد کو گرفتار کر لیا۔

فرانس میں مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 5 ملین ہے اور وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں حجاب پہننے والی خواتین کی تعداد 400 سے 2000 کے درمیان ہے۔ اب تک ان میں سے چند ہی کو حجاب پہننے پر جرمانہ ادا کرنا پڑا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ پولیس کسی قسم کے تصادم سے بچنے کے لیے مسلم اکثریتی علاقوں میں اس قانون کو نافذ نہیں کر رہی۔

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس پابندی کے حوالے سے کسی قسم کے فسادات سامنے آئے ہیں۔ جبکہ سابق صدر سارکوزی کا کہنا ہے کہ ٹریپس اور دوسرے مضافاتی علاقے خصوصی توجہ کے حامل ہیں۔

وزیر داخلہ مانوئل والس کا کہنا ہے کہ سخت موقف رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے گا جبکہ عام اور معتدل سوچ کے حامل مسلمان اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔