1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

پاکستان ایران کشیدگی: کیا سفارت کاری مزید تصادم روک پائے گی؟

عبدالستار، اسلام آباد
18 جنوری 2024

حالیہ دوطرفہ حملے دونوں پڑوسی ممالک کےمابین تعلقات میں کشیدہ ترین مرحلہ قرار دیے جا رہے ہے۔ ماہرین کے مطابق سفارت کاری کا راستہ اختیار نہ کیا گیا تو یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4bQDc
Pakistan greift Ziele im Iran an
تصویر: Tasnim

پاکستان کی طرف سے ایران کے سرحدی صوبے میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی مبینہ کمین گاہوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ایسے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں سفارت کاری پر عسکری سوچ غالب ہوتی نظر آرہی ہے۔ تاہم کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اب دونوں ممالک نارملائزیشن کی طرف جائیں گے۔

فی الحال چین، ترکی اور افغانستان میں حکمران طالبان نے دونوں ممالک کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔  بیجنگ نے کہا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں تعمیر ی کردار ادا کرنے کے لیے تیا ر ہے۔ امریکہ نے پاکستانی سرزمین پر ایرانی حملوں کی مزمت کی ہے۔

پاک ایران تعلقات میں اونچ نیچ

پاکستان اور ایران کے درمیان جند اللہ، جیش العدل، بلوچستان لبریشن آرمی اور دوسری عسکریت پسند تنظیموں کے حوالے سے ایک دوسرے سے شکوے شکایت رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کی بھارت سے قربت کو بھی اسلام آباد میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ 

Pakistan, Islamabad | Mumtaz Zahra Baloch
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچتصویر: Muhammet Nazim Tasci/Anadolu/picture alliance

انہی تعلقات کے سبب بھارت نے پاکستان پر ایرانی حملے کو  "دہشت گردی کے خلاف" تہران کی کارروائی دیتے ہوئے اس کی  تائید کی ہے۔ تہران کی طرف سے ماضی میں افغان طالبان کی مخالفت بھی دونوں ممالک میں تلخی پیدا کرتی رہی ہے۔ تاہم موجودہ صورتحال کو  پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات میں کشیدہ ترین مرحلے قرار دیا جا رہا ہے۔

’پاکستان مشرق وسطی کی جنگ میں کود گیا‘

اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ایران سے مختلف مسائل پر پاکستان کے تعلقات میں اونچ نیچ ہوتی رہی ہے لیکن دوطرفہ کشیدگی آج  جس سطح پر ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''  اس کی وجہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کا غائب ہونا  ہے اور دوسرے سویلین عہدیداران بھی نظر نہیں آرہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک کی پالیسی کوئی اور چلا رہا ہے اور یہ کوئی اور وہ ہے، جو سفارت کاری کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتے اسی لیے پاکستان ایک مشکل میں پھنس گیا ہے اور مشرق وسطی کی کشیدگی میں کود گیا ہے۔‘‘

 شمشاد احمد خان کو ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی مزید بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس سابق سفارت کار نے کہا، ''کیونکہ ہمارے بلوچستان میں کچھ ایسے عناصر ہیں جن کے بارے میں ایران دعویٰ کرتا ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل نواز ہیں، جن کے خلاف پاکستان اقدامات نہیں اٹھا رہا۔ اس وجہ سے ایران دوبارہ ان پر حملہ کرے گا اور پاکستان جواب دینے کی کوشش کرے گا، جس سے حالات عسکری حل کی طرف جائیں گے، جو میری نظر میں حل نہیں تباہی ہے۔‘‘

ایرانی رویہ اہم ہے

دفاعی امور کے ماہر اور سابق وفاقی سیکرٹری دفاع لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہمستقبل میں صورتحال کا انحصار ایران پر ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایران نے بنیادی طور پر حملہ کیا تھا تو شروعات ایران نے کی ہے اب یہ ایران پر منحصر ہوگا کہ وہ آگے کس طرح کا رویہ اختیار کرتا ہے۔‘‘

Schweiz 54. Weltwirtschafts-Forum in Davos
ورلڈ اکنامک فورم میں شریک ایرانی وزیر خارجہ حسین عامر عبدالہیان تصویر: DENIS BALIBOUSE//REUTERS

نعیم خالد لودھی کے مطابق جس طرح پاکستان پر حملہ ہوا تو ایسی صورتحال میں ریاستوں کو تین وجوہات کی بنا پر جواب دینا پڑتا ہے۔ ''پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دشمن کو ایک واضح میسج بھیجتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کو دکھاتے ہیں کہ وہ ایسے میں کیا ردعمل دیں گے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کو اعتماد دیتے ہیں کہ اگر ان کی خود مختاری پر کوئی حملہ ہوگا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔‘‘

ایران مخالف تنظیمیں سرگرم

پاکستانی علاقے میں ایرانی حملے کے بعد پاکستان میں کچھ حلقوں میں ایران مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے کئی رہنماں پر مشتمل تنظیم سنی علماء کونسل  نے ایرانی حملے کے خلاف 19 جنوری یعنی کل بروز جمعہ یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا ہے۔

عوامی جذبات اور ردعمل

 سکیورٹی امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سفارت کاری یا فوجی سوچ کے برعکس عموماﹰ ریاست وہ کرتی ہے جو عوام کی خواہش اور جذبات ہوتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایران کی طرف سے حملہ بلا اشتعال تھا، جس میں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور ریاست پر دباؤ تھا کہ اس کا وہ جواب دے جو اس نے ایک متوازن انداز میں دیا۔‘‘

Iran: Während einer Übung der Bodentruppen werden Raketen abgefeuert
ایران نے گزشتہ چند روز میں عراق، شام اور پاکستان میں حملے کیے ہیںتصویر: Iranian Army Office/ZUMA Wire/IMAGO Images

راشد ولی جنجوعہ کے مطابق پاکستان کی فوجی اور سول قیادت یہ چاہتی ہے کہ اس صورتحال کو معمول پہ لایا جائے۔ ''لیکن ایران نے حملے کے بعد اس پر احساس تفاخر ظاہر کیا جو یقیناﹰ مناسب نہیں ہے تو صورتحال نارمل ہو سکتی ہے۔ تاہم اس کا انحصار ایرانی رویے پر ہے۔‘‘

صورت حال معمول پرآ جائے گے

 سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ اور ہڈسن انسٹیٹیوٹ سے وابستہ اسکالر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ  دونوں ریاستوں کی طرف سے ایک دوسرے کو پیغامات بھیج دیے گئے ہیں اور اب دونوں معمول کی صورتحال کی طرف جائیں گے۔ حسین حقانی نے ڈبلیو کو بتایا، '' ان فوجی حملوں کے بعد دونوں فریقین بات چیت کریں گے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی مزید کشیدگی نہیں چاہتا۔ ایران غالباﹰ پاکستان کو پیغام دینا چاہتا تھا کہ اسلام آباد سنی جہادی گروپوں کو، جو پاکستان کی سرزمین کو ایران پر حملے کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، انہیں لگام دیں۔ پاکستان نے بھی ایران کو اپنا پیغام دے دیا ہے کہ وہ کسی علاقائی خود مختاری کی خلاف ورزی پر خاموش نہیں بیٹھے گا بلکہ اس کا بھرپور جواب دے گا۔‘‘

مذاکرات اور ایکشن دونوں کے لیے تیار 

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک پریس ریلیز میں ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے حل کے لیے مذاکرات اور ایکش دونوں کی جانب اشارہ دیا گیا ہے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے، ''ہم پاکستان کے تمام دشمنوں کو شکست دینے میں پرعزم ہے اور یہ کے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت اور تعاون دانشمندی کا تقاضا ہے۔‘‘

ایرانی معیشت کا بڑا حصہ، ایرانی انقلابی گارڈز کے ہاتھ میں