1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتیورپ

جرمن کار ساز ادارے چین کے سامنے بے بس

6 مئی 2024

یورپ کے بڑے بڑے کار ساز اداروں میں وقفے وقفے سے ملازمتیں ختم کرنے کے اعلانات سامنے آ رہے ہیں۔ کار سازی کے میدان میں یورپ کو چین جیسے بڑے ایشائی ممالک کے مقابلے کا سامنا ہے اور یورپ ’ہارتا ہوا‘ نظر آ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4fY9v
BdTD | China
تصویر: AFP

امراللہ کاراچا گزشتہ 20 برسوں سے بریکیں بنا رہے تھے لیکن اب وہ ہیٹ پمپ اسمبل کرنا سیکھ رہے ہیں، کیونکہ شمالی جرمنی کی کانٹی نینٹل نامی فیکڑی، جہاں وہ کام کرتے تھے، جلد ہی بند ہونے والی ہے۔

کانٹی نینٹل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق گِفورن قصبے میں کاروں کے پرزوں کی پیداوار سن 2027 تک ختم کر دی جائے گی اور یہ کمپنی کروشیا، چیک جمہوریہ اور ویلز منتقل ہو جائے گی تاکہ اخراجات کو ''مسابقتی‘‘ رکھا جا سکے۔ اس ادارے نے اپنے ہاں تقریباً سات ہزار ملازمتیں مستقل طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جرمنی سے اس کمپنی کی نقل مکانی کا مطلب 49 سالہ کاراچا کے لیے ایک نیا کیریئر ہے۔ ایسی کئی کمپنیاں ہیں، جو جرمنی کے اہم آٹو موٹیو سیکٹر کو پرزے سپلائی کرتی ہیں لیکن ایسی کمپنیوں سے فارغ کیے جانے والے ملازمین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

احتراقی انجنوں پر پابندی اور چین جیسے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ممالک کی وجہ سے یورپی کمپنیوں کو دوہرے مسائل کا سامنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بوش، زیڈ ایف اور ویباسٹو جیسے یورپی سپلائر ملازمتوں میں کٹوتیوں کا اعلان کر چکے ہیں۔

 بوش، زیڈ ایف اور ویباسٹو جیسے یورپی سپلائر ملازمتوں میں کٹوتیوں کا اعلان کر چکے ہیں
بوش، زیڈ ایف اور ویباسٹو جیسے یورپی سپلائر ملازمتوں میں کٹوتیوں کا اعلان کر چکے ہیںتصویر: Sean Gallup/Getty Images

یورپی سیاستدانوں پر دباؤ

یہ مسئلہ اس قدر گمبھیر ہو چکا ہے کہ اس نے آئندہ یورپی پارلیمانی انتخابات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ برسلز نے کاروں کی مقامی صنعت کو فروغ دینے اور کم قیمت ایشیائی حریفوں سے ''غیر منصفانہ مقابلے‘‘ سے نمٹنے کے لیے مزید کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

چینی کار ساز کمپنیوں کا جرمن مارکیٹ میں مشروط خیر مقدم

لیکن یورپی یونین سن  2035 سے فوسل فیول سے چلنے والی نئی کاروں کی فروخت کو غیر قانونی قرار دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کچھ ملازمتیں لامحالہ ختم ہو ہی جائیں گی۔

صرف جرمنی میں ایگزاسٹ، ہیڈلائٹس، گیئر باکس یا بریکیں بنانا طویل عرصے سے ایک مستقل کام رہا ہے اور تقریباً دو لاکھ ستر ہزار افراد کا روزگار اس شعبے سے وابستہ ہے۔ تاہم، جن ٹیکنالوجیز میں ان ملازمین نے مہارت حاصل کر رکھی ہے، وہ اب متروک ہوتی جا رہی ہیں اور نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ الیکٹرک کاریں بنانے کا عمل کم محنت طلب ہے۔

لُڈوِگز ہافن یونیورسٹی کی بزنس پروفیسر یُوٹا رُمپ کہتی ہیں، ''اگر آج آپ کو ایک عام گاڑی بنانے کے لیے 100 لوگوں کی ضرورت ہے تو الیکٹرک گاڑی کے لیے آپ کو صرف 10 کارکنوں کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘

جرمن کمپنیاں چین کے سامنے بے بس

جو ملازمتیں باقی ہیں، وہ ان چینی حریفوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ میں ہیں، جن کا حصہ مارکیٹ میں دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ کنسلٹنسی رولینڈ بریگر کے مطابق بیٹریاں بنانے والا چینی ادارہ CATL مختصر عرصے میں ترقی کرتا ہوا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا آٹو پارٹ سپلائر بن چکا ہے۔

 بیٹریاں بنانے والا چینی ادارہ CATL مختصر عرصے میں ترقی کرتا ہوا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا آٹو پارٹ سپلائر بن چکا ہے
بیٹریاں بنانے والا چینی ادارہ CATL مختصر عرصے میں ترقی کرتا ہوا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا آٹو پارٹ سپلائر بن چکا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن کار ساز اداروں کی ایسوسی ایشن  ''وی ڈی اے‘‘ کے ایک سروے کے مطابق آئندہ چند برسوں کے دوران جرمنی میں اس شعبے سے منسلک ہر تین میں سے ایک کمپنی لاگت میں کمی کے لیے اپنی پیداوار کا کچھ حصہ بیرون ملک منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

جرمنی کے مغربی علاقے زار لُوئی میں واقع فورڈ کی فیکٹری کے 3400  ملازمین پر یہ کلہاڑی پہلے ہی گر چکی ہے۔ اس پلانٹ کی بندش سے مقامی سپلائرز کا ایک پورا نیٹ ورک ختم ہونے جا رہا ہے۔

کیا 2024ء جرمن کار انڈسٹری کے لیے تبدیلی کا سال ہوگا؟

متاثرین میں 33 سالہ لوکا تھونیٹ بھی شامل ہیں، جو فورڈ کے سپلائر لیئر کے ملازم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ شوق سے اپنے اسی علاقے میں رہتے ہوئے ملازمت کرنا چاہتے ہیں، ''لیکن اس علاقے میں تقریباً کوئی صنعت باقی نہیں بچی اور دیگر کارخانوں کی بھی صورتحال اچھی نہیں ہے۔‘‘

تھونیٹ نے جرمنی کی دوسری سب سے بڑی آٹو پارٹ سپلائر کمپنی زیڈ ایف کی صورت حال کا حوالہ دیا، جس نے اپنی مقامی مارکیٹ میں دو پلانٹس کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ زیڈ ایف ورکس کونسل کو خدشہ ہے کہ تقریباً 12 ہزار ملازمتوں کی کٹوتی ممکن ہے۔

جرمنی کو ہنرمند افراد کی کمی کا سامنا بھی ہے لیکن تمام شعبے یکساں طور پر متاثر نہیں ہیں۔ پروفیسر یُوٹا رُمپ کے مطابق آئی ٹی، پراڈکٹ ڈویلپمنٹ، یا سیلز میں کوالیفائیڈ کارکنوں کی کمی ہے لیکن پروڈکشن میں ایسا نہیں ہے۔

ا ا / م م (اے ایف پی)

کيا جرمن آٹو انڈسٹری کی عالمی ساکھ بگڑ رہی ہے؟