1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قرآن سوزی: انسانی حقوق کونسل میں پاکستانی قرارداد منظور

12 جولائی 2023

سویڈن میں قرآن سوزی واقعے کے پس منظر میں مذہبی منافرت کے خلاف پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد بدھ کو منظور کرلی گئی۔ امریکہ اور یورپی یونین نے قرارداد کی مخالفت کی۔

https://p.dw.com/p/4TlPo
Schweiz | UN-Menschenrechtsrat in Genf
تصویر: FABRICE COFFRINI/AFP/Getty Images

اقوام متحدہ کی 47 رکنی انسانی حقوق کی کونسل میں قرارداد کے حق میں 28 ممالک نے ووٹ دیا، 12 نے مخالفت کی جبکہ سات ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس قرارداد کی امریکہ اور یورپی یونین نے اس دلیل کے ساتھ مخالفت کی کہ یہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار سے متعلق ان کے نقطہ نظر سے متصادم ہے۔

پاکستان کی طرف سے پیش کردہ قرارداد میں گزشتہ ماہ سویڈن میں قرآن سوزی کے واقعے کے مدنظر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کونسل کے سربراہ سے اس موضوع پر ایک رپورٹ شائع کرنے اور تمام ملکوں سے اس حوالے سے "اپنے قوانین کا جائزہ لینے نیز ایسے خلاء کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے، جو مذہبی منافرت کی وکالت اور قانونی کارروائی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔"

کونسل برائے انسانی حقوق کے ہنگامی اجلاس میں منگل کو سویڈن میں قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے پر بحث ہوئی تھی جس میں پاکستان، سعودی عرب اور ایران سمیت دیگر اسلامی ممالک نے قرآن کو نذر آتش کرنے کو مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے جوابدہی کا مطالبہ کیا تھا۔

'قرآن سوزی مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے مترادف'، اقوام متحدہ

 قرارداد کے مسودے میں مذہبی منافرت کے تمام مظاہر کی مذمت کی گئی ہے اور ذمہ داروں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ قرار داد میں ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ "مذہبی منافرت کی ایسی تمام کارروائیوں اور حمایت سے نمٹنے، اسے روکنے اور ان پر مقدمہ چلانے کے لیے قوانین اپنائیں جو کہ تفریقی سلوک، دشمنی یا تشدد پر اکسانے کے مترادف ہیں۔"

 قرارداد پر منگل کو بحث کے بعد امریکہ، برطانیہ سمیت یورپی ممالک نے قرآن کو نذر آتش کرنے کی مذمت کرتے ہوئے ووٹنگ سے خود کو باہر کر لیا تھا۔ کچھ مغربی ممالک نے قرارداد کے الفاظ میں نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ سویڈن میں ایک عراقی تارک وطن نے گذشتہ ماہ دارالحکومت اسٹاک ہولم کی ایک مسجد کے باہر قرآن کے صفحات کو نذر آتش کردیا تھا، جس سے پوری مسلم دنیا میں غم و غصہ پھیل گیا اور کئی پاکستان سمیت متعدد ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

قرآن سوزی، مسلمانوں کے ایمان پر حملہ: بلاول بھٹو

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا،" ہمیں یہ واضح طور پر دیکھنا چاہیے کہ یہ کیا ہے؟ مذہبی منافرت پر اکسانا، تفریقی سلوک اور تشدد کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔"

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ "قرآن پاک کی بے حرمتی کے سرعام اور سوچے سمجھے عمل سے مسلمانوں کو پہنچنے والے گہرے نقصان کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ ان کے ایمان پر حملہ ہے۔"

 انہوں نے کہا کہ"قرآن پاک کی جان بوجھ کر بے حرمتی حکومتی اجازت کے تحت اور معافی کے احساس کے ساتھ جاری ہے" اور یہ کہ اس طرح کی کارروائیاں "زیادہ سے زیادہ اشتعال انگیزی "کے لیے کی گئیں۔انہوں نے کہا کہ  "ہمیں اس کی مذمت میں متحد ہونا چاہیے اور نفرت کو ہوا دینے والوں کو الگ تھلگ کرنا چاہیے۔"

قرآن سوزی سے متعلق پاکستانی قرارداد اقوام متحدہ میں زیر بحث

انہوں نے کہا کہ" اس کرہ ارض پر ایک بھی مسلمان ملک ایسا نہیں ہے جو دوسرے مذاہب کے مقدس اوراق اور کتابوں کی بے حرمتی کی اجازت دیتا ہو، ایسا عمل کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابل تصور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی ثقافت، عقیدے اور قانون میں بھی ممنوع ہے لہٰذا اسی جذبے سے سرشار ہو کر میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوں جو اہل ایمان کے خلاف اشتعال انگیزی اور دشمنی کی روک تھام، اس کی قانونی روک تھام اور ان سے جواب دہی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔"

اسٹاک ہولم میں قرآن سوزی کے حالیہ واقعے کے بعد پاکستان سمیت متعدد ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے
اسٹاک ہولم میں قرآن سوزی کے حالیہ واقعے کے بعد پاکستان سمیت متعدد ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئےتصویر: Raja Imran/Pacific Press/picture alliance

نفرت انگیزی کا مقصد برادریوں اور طبقات میں تفریق پیدا کرنا

 اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر ہر جگہ بڑھ رہی ہے اس طرح کے اقدامات اشتعال انگیزی اور معاشرے کے مختلف برادریوں اور طبقات کو تقسیم کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ" ایسا لگتا ہے کہ قرآن کو نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعات توہین اور اشتعال انگیزی، لوگوں کے درمیان تفریق، انہیں مشتعل اور اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے تشدد میں تبدیل کرنے کے لیے انجام دیے گئے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ قانون یا ذاتی اعتقاد سے قطع نظر لوگوں کو دوسروں کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔

او آئی سی کا اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے عالمی اقدامات کا مطالبہ

ان کہنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف تقریر اور اشتعال انگیز کارروائیاں، اسلامو فوبیا، یہودی دشمنی پر مبنی اقدامات اور عیسائیوں کو نشانہ بنانے والے اقدامات اور تقاریر یا اقلیتی گروہوں جیسے احمدیوں، بہائیوں یا یزیدیوں کی تضحیک پر مبنی اقدامات جارحانہ، غیر ذمہ دارانہ اور غلط ہیں۔

وولکر کا کہنا تھا کہ نفرت انگیز تقاریر کا مقابلہ مکالمے، تعلیم، بیداری اور بین المذاہب ہم آہنگی سے کرنے کی ضرورت ہے۔

قرارداد پر بحث نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور مغربی اراکین کے درمیان اختلافات کو بھی اجاگر کیا۔

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)