1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانسیسی وزیر مسلم خواتین فٹ بالروں کے حجاب پہننے کے حق میں

11 فروری 2022

فرانس میں مسلم خواتین فٹ بال کھلاڑی کھیل کے میدان میں حجاب پہننے پرعائد پابندی کو ختم کرنے کی مہم چلا رہی ہیں۔ ملک کی صنفی مساوات کی وزیر نے مسلم خواتین کھلاڑیوں کے اس مطالبے کی حمایت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/46r42
فرانس کی وزیر ایلزابیتھ مورینو (درمیان میں)نے مسلم خواتین فٹ بالروں کے حجاب پہننے کی حمایت کی ہے
فرانس کی وزیر ایلزابیتھ مورینو (درمیان میں)نے مسلم خواتین فٹ بالروں کے حجاب پہننے کی حمایت کی ہےتصویر: Sarah Meyssonnier/REUTERS

فرینچ فٹ بال فیڈریشن نے حال ہی میں جو نئے ضابطے طے کیے ہیں ان کی رو سے کھیل کے مقابلوں کے دوران مذہبی علامات مثلاً خواتین کے لیے حجاب اور یہودیوں کے لیے کپّا (ٹوپی) پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

'لیس ہجابیئسز' نامی خواتین کی ایک تنظیم نے فرینچ فٹ بال فیڈریشن کے ضابطوں کو نومبر میں قانونی طور پر چیلنج کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے ضابطے تفریق پیدا کرنے والے اور ان کے مذہبی عمل کی ادائیگی میں مداخلت ہیں۔

فرانس کی صنفی مساوات کی وزیر ایلزابیتھ مورینو نے ایل سی آئی ٹیلی ویزن سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا، "ملکی قانون کہتا ہے کہ نوجوان خواتین حجاب پہن کر فٹ بال کھیل سکتی ہیں۔ آج فٹ بال کے میدانوں میں حجاب ممنوع نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اس قانون کا احترام کیا جائے۔"

حجاب کا معاملہ انتخابی موضوع بن سکتا ہے

فرانس میں صدارتی انتخابات میں اب دو مہینے رہ گئے ہیں۔ حجاب کا یہ معاملہ اب ملک میں گفتگو کا اہم موضوع بن گیا ہے، جو سیکولرزم پر سختی سے کاربند ہے اور جس کا مقصد ریاست اور مذہب کو الگ الگ رکھنا ہے۔

فرانس کی سینیٹ میں دائیں بازو کی ری پبلیکن پارٹی کی اکثریت ہے۔ اس نے جنوری میں ایک قانون کی تجویز پیش کی تھی جس میں کھیل کے تمام مقابلوں کے دوران مذہبی علامات استعمال کرنے پر پابندی عائد کرنے کی بات کہی گئی ہے۔

فرانسیسی پارلیمان کے ایوان زیریں نے بدھ کے روز اس تجویز کو مسترد کردیا۔ ایوان زیریں میں صدر ایمانوئل ماکروں کی ریپبلکن پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی اکثریت ہے۔

سیکولرزم کے حوالے سے فرانس کا قانون تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اورعوامی مقامات پر مذہبی علامات پہننے پر کسی طرح کی پابندی عائد نہیں ہے۔ البتہ سن 2010 میں چہرے کو مکمل طور پر ڈھکنے والے برقعہ پہننے کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔

'حجاب مذہبی علامت نہیں ثقافت ہے'

'لیس ہجابیئسز'نے فرانسیسی پارلیمنٹ کے سامنے بدھ کے روز ایک مظاہرے کا منصوبہ بنایا تھا تاہم مقامی حکام نے سکیورٹی کی بنیاد پر اس کی اجازت نہیں دی۔

'لیس ہجابیئسز' کی شریک بانی فاونئے دیاوارا نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو جنوری میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا، "ہم سمجھتے ہیں کہ فٹ بال فیڈریشن کا نیا ضابطہ ہمارے ساتھ بڑی ناانصافی ہے۔ ہم صرف فٹ بال کھیلنا چاہتے ہیں۔ ہم حجاب حامی کارکنان نہیں ہیں، ہم تو صرف فٹ بال کے مداح ہیں۔ "

انٹرنیشنل فٹ بال ایسوسی ایشن بورڈ نے سن 2014 میں کھیلوں کے دوران خواتین کو حجاب پہننے کی اجازت دے دی تھی، اس کی دلیل ہے کہ حجاب ایک مذہبی علامت کے بجائے ایک ثقافت ہے۔ دوسری طرف فرانسیسی فٹ بال فیڈریشن کا کہنا ہے کہ وہ فرانسیسی قانون پر عمل کر رہا ہے۔

ملک کی اعلیٰ ترین آئینی عدالت 'لیس ہجابیئسز' کی طرف سے دائر کردہ اپیل پر سماعت کر رہی ہے۔

ج ا/ ص ز (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں